مولانا
حبیب الرحمن
اعظمی
اسلام
ایک جامع اور
مکمل شریعت
ہے، جس کے
اندر مختلف
نوع کی عبادتیں
ہیں، جن میں
سے بعض کا
تعلق قول سے
ہے؛ جیسے:
ذکر، دُعا،
دعوت الی الخیر،
وعظ و تذکیر
اور تعلیم و
تعلّم وغیرہ
اور بعض عبادتیں
ایسی ہیں جن
کاتعلق فعل سے
ہے، خواہ وہ
بدنی ہوں، جیسے:
نماز یا مالی
ہوں، جیسے:
زکوٰة و صدقات
یا بدنی و مالی
دونوں ہوں، جیسے:
حج اور جہاد فی
سبیل اللہ اور
بعض عبادتیں
وہ ہیں جو نہ
قولی ہیں اور
نہ فعلی؛ بلکہ
ان میں صرف
رکنا پایا
جاتا ہے، جیسے:
روزہ (اکثر
علماء نے روزہ
کو عبادتِ بدنی
میں شمار کیا
ہے۔ اور یہی
اقرب الی
الصواب ہے ؛ کیونکہ
کسی چیز سے
رُکنا بھی تو
ایک فعل اور
عمل ہی ہے۔
روزہ
کی حقیقت
عبادت
کی نیت سے
صبحِ صادق سے
غروب آفتاب تک
کھانے پینے
اور جماع سے
رُکے رہنے کا
نام روزہ ہے، یہ
عبادت اسلام
سے پہلے دیگرمذاہب
میں بھی کیفیت
وکمیت کے فرق
کے ساتھ مشروع
تھی، جیساکہ
قرآن خود
شہادت دے رہا
ہے:
یَا
اَیُّھَا
الذِیْنَ
آمَنُوا
کُتِبَ عَلَیْکُمُ
الصِّیَامُ
کَمَا کُتِبَ
عَلَی الَّذِیْنَ
مِنْ
قَبْلِکُمْ
لَعَلَّکُمْ
تَتَّقُوْنَ
(اے
ایمان والو
فرض کیاگیا تم
پر روزہ جیسے
فرض کیاگیا
تھا ان لوگوں
پر جو تم سے
پہلے تھے؛
تاکہ تم پرہیزگار
ہوجاؤ)
لیکن
جس طرح اسلام
نے نماز، زکوٰة
میں جامعیت و
مرکزیت پیدا
کرکے، انھیں دیگر
ادیان و مذاہب
کی نماز وزکوٰة
سے ممتاز بنادیا۔
اسی طرح سے
روزہ کو بھی دیگر
مذاہب کے
روزوں کے
مقابلہ میں
اختصاص و امتیاز
عطاکیاگیا؛
چنانچہ اسی
غرض سے صومِ
مفروض کو ایک
مہینہ کے لیے
خاص کیاگیا
اور پھر اس کے
لیے وہ مہینہ
منتخب کیاگیا
،جس میں اللہ
کی جانب سے
مسلمانوں کو
دستور ہدایت یعنی
قرآن مرحمت
فرمایاگیا
ارشاد خداوندی
ہے:
شَھْرُ
رَمَضَانَ
الَّذِیْ
اُنْزِلَ فِیْہِ
الْقُرْآنُ
ھُدَی
لِّلنَّاسِ
وَبَیِّنَاتٍ
مِنَ الْھُدَیٰ
وَالفُرْقَانِ
فَمَنْ
شَھِدَ
مِنْکُمْ الشَّھْرَ
فَلْیَصُمْہُ
(البقرہ)
(رمضان
وہ مہینہ ہے
جس میں نازل کیاگیا
قرآن جو
انسانوں کے لیے
ہدایت ہے اور
ہدایت کی واضح
دلیل اور حق و
باطل کے درمیان
فرق کرنے والا
ہے؛ لہٰذا جو
شخص اس مہینہ
کو پائے تو
اُس کے روزے
ضرور رکھے)۔
روزہ
کی مصلحتیں
(۱) ہمیں اس
بات پر یقین
کامل ہے کہ
روزہ کی فرضیت
میں بہت سی
حکمتیں
ومصلحتیں پوشیدہ
ہیں، اگرچہ
ہمارا نارسا
ذہن ان تمام
اسرار وحکم اور
مصالح تک نہ
پہنچ سکے؛
البتہ بعض
حکمتیں جو
سمجھ میں آرہی
ہیں انھیں یہاں
بیان کیا
جارہا ہے۔
اس
سلسلے میں ہمیں
سب سے پہلے
خود اپنے وجود
پر․․․ غور
کرنا چاہیے کہ
انسان کی اصل
حقیقت کیا ہے؟
کیا انسان
گوشت و پوست
اور ہڈی چمڑے
کے اس ظاہری
مجموعہ کا نام
ہے؟ یا اس کی
حقیقت اس ظاہری
ڈھانچہ کے
علاوہ کچھ اور
ہے؟ ظاہر ہے
کہ صرف اس
ظاہری ڈھانچہ
کو انسان کبھی
نہیں کہا
جاسکتا؛ کیونکہ
اس صورت میں
انسان سے زیادہ
حقیر اور کم
درجہ کی کوئی
اور مخلوق نہ
ہوگی؛
حالانکہ
انسان اشرف
مخلوقات اور
خلاصہٴ
کائنات ہے؛ اس
لیے لازمی طور
پر یہ ماننا
ہوگا کہ انسان
اس ظاہری شکل
و صورت کا نام
ہرگز نہیں ہے؛
بلکہ یہ کسی
اور ہی چیز کا
نام ہے، جس کی
بنا پر وہ
تمام مخلوقات
میں ایک امتیازی
مقام رکھتا ہے۔
اب سوال پیدا
ہوتاہے کہ آخر
وہ کونسی چیز
ہے، جس کے ذریعہ
انسانیت کا
وجود متحقق
ہوتا ہے تو
نفسِ انسانی میں
غور و فکر
کرنے سے یہ
بات واضح
ہوجاتی ہے کہ
درحقیقت
انسان ایک
جوہر روحانی
کا نام ہے، جس
کے اندر اللہ
تعالیٰ نے اپنی
حکمتِ بالغہ
سے غور وفکر کی
استعداد
وصلاحیت پیدا
کررکھی ہے جس
کے ذریعہ وہ
نہ صرف سمجھتا
بوجھتا ہے؛
بلکہ پوری
کائنات پر
حکومت کرتا ہے
اور اسی امتیازی
وصف کی بناء
پر مسجودِ
ملائکہ بنایاگیا؛
چنانچہ قرآن
حکیم اس حقیقت
کو ان الفاظ میں
بیان کرتا ہے:
اِذْ
قَالَ
رَبُّکَ
لِلملائکةِ
اِنِّیْ
خَالِقٌ
بشرًا مِنْ طِیْنٍ
فَاِذَا
سَوَّیْتُہُ
وَنَفَخْتُ
فِیْہ مِنْ
رُوْحِیْ
فَقَعُوا
لَہُ سَاجِدِین․
(سورہٴ ص)
(جب
کہا تمہارے رب
نے فرشتوں سے
میں بناتا ہوں
ایک انسان مٹی
کا۔ پھر جب ٹھیک
بناچکوں اور
پھونکوں اس میں
اپنی رُوح سے
تو تم جھک پڑو
سجدہ میں۔)
چونکہ
خواہشاتِ
نفسانیہ کو
دبانے سے قوتِ
روحانیہ کو
تقویت حاصل
ہوتی ہے روزہ
میں خواہشِ
بطن و فرج کی
شکست و ریخت
ہوتی ہے؛ اس لیے
لازمی طور پر
روحانیت کو
قوت و طاقت
ملے گی اور اسی
جوہرِ روحانی
سے آدمی انسان
کہلاتا ہے تو
گویا روزہ کے
ذریعہ انسانیت
کی تشکیل و
تکمیل ہوتی ہے۔
(۲) روزہ سے
جہاں روح کو
طاقت ملتی ہے،
وہیں اس سے
بدن کی بھی
اصلاح ہوتی
ہے؛ اس لیے کہ
اکثر امراض
معدہ کی خرابی
کی بناء پر پیدا
ہوتے ہیں
(چنانچہ کہا
جاتا ہے
”المعدة ام
الأمراضِ“
معدہ بیماریوں
کی جڑ ہے۔ نبی
کریم ﷺ نے بھی
ایک حدیث میں
فرمایا ہے کہ ”ما مَلَاءَ
ابنُ آدمَ
وِعَاءً
شَرًّا مِنْ بَطْنِہ“ انسان کے لیے
سب سے خراب
بات اپنے شکم
کو پر کرنا
ہے؛ لہٰذا جب
پیٹ کا بھرنا۔
امراض اور بیماریوں
کا پیش خیمہ
ہے، تو اس کا
علاج یہ ہے کہ
پیٹ کو خالی
رکھا جائے اور
روزہ کے اندر یہی
بات ہے کہ پیٹ
کو خالی رکھا
جاتا ہے۔ جس
سے بدن کی
اصلاح ہوجاتی
ہے اور آدمی
بہت سے امراض
سے محفوظ
ہوجاتا ہے۔
(۳) روزہ کا ایک
اہم فائدہ یہ
بھی ہے کہ اس
کے ذریعہ سے
آدمی کے اندر
صبر و استقامت
کی قوت پیدا
ہوتی ہے (جو
انسان کے لیے
بڑی خوبی کی چیز
ہے) روزہ دار
کے سامنے عمدہ
اور مرغوب
غذائیں ٹھنڈا
اور شیریں پانی
رکھا رہتا ہے؛
مگر ان کی طرف
نگاہ اٹھاکر
بھی نہیں دیکھتا؛
حالانکہ
بظاہر اس کو
ان چیزوں کے
استعمال کرنے
سے کوئی چیز
مانع نہیں ہے؛
لیکن اس کا ضمیر
اس کے لیے تیار
نہیں ہوتا کہ
وہ اپنے روزہ
کو برباد کرکے
خدا کے غضب کا
مستحق بنے، ایک
مہینہ کی یہ
مشق و تمرین
لامحالہ
انسان کے اندر
استقلال و
استقامت کی
طاقت پیدا کرے
گی؛ چنانچہ
ماہرین نفسیات
نے اپنے علم و
تجربہ کی بنیاد
پر یہ بات کہی
ہے کہ روزہ سے
زیادہ ارادوں
میں پختگی اور
عزائم میں پائیداری
پیدا کرنے والی
کوئی دوسری چیز
نہیں ہے؛ اسی
لیے نبی کریم ﷺ
نے بطور خاص
جوانوں کو
مخاطب کرکے
فرمایا ہے:
یَا
مَعْشَرَ
الشَّبَابِ
مَنِ
اسْتَطَاعَ مِنْکُمُ
البَاءَ ةَ
فَلْیَتَزَوَّجْ
فَاِنَّہ
اَغَضُّ
لِلْبَصَرِ وَأحْصَنُ
لِلْفَرَجِ
وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ
فَعَلیہِ
بِالصَّومِ
فَاِنَّہ لَہ
وِجَاءٌ․
(بخاری شریف)
(اے
جوانوں! تم میں
سے جس کے اندر
استطاعت ہو وہ
ضرور نکاح
کرے؛ اس لیے
کہ نکاح
نگاہوں کو پست
رکھنے والا
اور فرج کی
حفاظت کرنے
والا ہے اور
جو نکاح کی
طاقت نہیں
رکھتا وہ اپنے
اوپر روزہ کو
لازم کرلے؛ اس
لیے کہ روزہ
اس کے لیے
بندش کا کام
دے گا)۔
ایک
موقع پر اسی
مضمون کو یوں
بیان فرمایا:
لِکُلّ
شیءٍ زکوٰةٌ
وَزَکوٰةُ
الجَسَدِ
الصومُ،
والصومُ
نِصْفُ الصَبْرِ․
(ہر
چیز کی زکوٰة
ہے اور جسم کی
زکوٰة روزہ ہے
اور روزہ نصف
صبر ہے)
اس
حدیث پاک میں
روزہ کو نصف
صبر اس لیے
فرمایاگیا ہے
کہ انسان کے
اندر تین قوتیں
ہیں ایک قوت
شہوانی، دوسری
قوت غضبی اور
تیسری قوت
روحانی اور
روزہ سے انسان
قوت شہوانی پر
غالب آجاتا ہے
تو گویا اُسے
نصف صبر حاصل
ہوگیا۔
(۴) اسلام صرف
نام ونمود کا
مذہب نہیں ہے؛
بلکہ یہ دینِ
جہاد ہے۔
یہ شہادت
گہِ الفت میں
قدم رکھنا ہے لوگ
آسان سمجھتے ہیں
مسلماں ہونا
اور
جہاد کے لیے
صبر و استقامت
ایک لازمی چیز
ہے؛ لہٰذا جو
شخص اپنی ذات
کے مقابلہ میں
جہادنہیں
کرسکتا، وہ
اپنے دشمن سے
کیا مقابلہ
کرے گا؟ اور
جس کا اپنے
نفس پر قابو
نہیں چلتا وہ
اپنے دشمن کو
کیونکر زیر
کرے گا۔ اور
جسے ایک دن کی
بھوک و پیاس
پر صبر نہیں
ہوتا وہ
گھربار
چھوڑنے پر کیسے
صبر کرے گا؛
اس لیے سال میں
ایک ماہ کے
روزے کا حکم
دے کر صبر و
استقامت کی
تمرین کرائی
جاتی ہے؛ تاکہ
آدمی جہاد کے
لیے تیار
ہوجائے۔
(۵) روزہ کے ذریعہ
اللہ تعالیٰ کی
عطا کردہ
نعمتوں کی قدر
و منزلت کا
عرفان پیدا
ہوتا ہے کیونکہ
”تُعْرَفُ
الاشیاءُ
بِاَضْدَادِھَا“ جب تک آدمی
کو بھوک و پیاس
کی شدّت کا
احساس نہ ہو،
اُسے کھانے پینے
کی سچی قدر کیا
ہوگی اور جب
ان نعمتوں کی
قدر ومنزلت کی
معرفت حاصل
ہوگی تو اس کا
زیادہ سے زیادہ
حق ادا کرنے کی
کوشش کرے گا
تو اس طرح
روزہ اللہ
تعالیٰ کے شکر
اور اس کی
عبادت پر
آمادہ کرنے میں
ایک قوی اثر
رکھتا ہے؛ اسی
لیے ہمارے آقا
ومولیٰ ﷺ نے
فقر کو غنا پر
ترجیح دی؛
چنانچہ ارشاد
ہے:
عَرَضَ
عَلیَّ رَبِّی
لِیَجْعَلَ
لِیْ
بَطْحَاءَ
مکةَ ذَھَبًا
قُلْتُ لاَ یَارَبِّ
وَلٰکِنْ
اَشْبَعُ یَوْمًا
وَاَجُوعُ یومًا
فَاذَا
جِعْتُ
تَضَرَّعْتُ
الَیْکَ
وذکرتُ واذَا
شَبِعْتُ
شَکَرْتُکَ
وَحَمِدْتُکَ․(ترمذی)
(مجھ
پر میرے رب نے یہ
بات پیش کی کہ
میرے لیے
بطحاء مکہ
سونا بنادیا
جائے تو میں نے
عرض کیا اے میرے
رب مجھے اس کی
ضرورت نہیں؛ میں
تو ایک دن
آسودہ شکم
رہوں گا اور ایک
دن بھوکا رہوں
گا۔ جس دن
بھوکا رہوں گا
آپ سے تضرع
کروں گا اور
آپ کو یاد
رکھوں گا۔ اور
جس دن آسودہ
رہوں گا آپ کا
شکراور حمد
کروں گا۔)
(۶) پھر روزہ کی
وجہ سے جب آدمی
بھوک و پیاس کی
شدت کو محسوس
کرتا ہے تواس
کے اندر غرباء
ومساکین کی
تکلیف کا
احساس بیدار
ہوجاتا ہے؛ کیونکہ
ناز ونعمت میں
پلا ہوا جس نے
بھوک و پیاس کی
تکلیف کبھی
برداشت نہ کی
ہو۔ اُسے
بھوکوں، پیاسوں
کی حالت زار
اور اذیت کا کیا
علم ہوگا؛ لیکن
روزہ کی وجہ
سے جب اُسے بھوک
کی اذیت کا
ذاتی تجربہ
ہوتا ہے تو
پھر اس کے
اندر یہ جذبہ
پیدا ہوگا، کہ
غریبوں اور
ناداروں کی
امداد و اعانت
کرکے انھیں اس
تکلیف و اذیت
سے بچائے؛
چنانچہ
آنحضرت ﷺ کے
متعلق اربابِ
سیر لکھتے ہیں
کہ حیاتِ طیبہ
کے آخری دور میں
جب اموالِ فئی
کی وجہ سے آپ کی
تنگدستی دور
ہوگئی تھی، اس
زمانہ میں آپ
نے روزوں کی
تعداد میں زیادتی
فرمادی تھی۔
اور جب آپ سے
اس کا سبب
پوچھا گیا تو
فرمایا کہ
”روزہ اس لیے
رکھتا ہوں؛
تاکہ غریبوں
کو بھول نہ
جاؤں“۔
(۷) اور ان سب
مصالح کے
علاوہ سب سے
اہم بات جو
روزہ سے حاصل
ہوتی ہے وہ
اپنے آپ کو
اللہ تعالیٰ
کے حوالہ کردینا
ہے اور یہ تسلیم
اور خودسپردگی
ہر عبادت کا
حاصل اور
خلاصہ ہے جیسا
کہ ارشاد
خداوندی ہے:
سَمِعْنَا
وَاَطَعْنَا
غُفْرَانَکَ
رَبَّنَا
وَاِلَیْکَ
الْمَصِیْر․
(البقرہ)
(ہم
نے سنا اور
قبول کیا تیری
بخشش چاہتے ہیں،
اے ہمارے رب
اور تیری طرف
لوٹ کر جانا
ہے۔)
اِنَّ
صَلاَتِيْ
وَنُسُکِيْ
وَمَحْیَايَ
وَمَمَاتِيْ
لِلہِ رَبّ
العٰلمین․
(یقینا
میری نماز اور
میری دیگر
عبادتیں اور میری
حیات اور موت
سب اللہ ہی کے
لیے ہے)
اور
یہ تسلیم و
رضا روزہ کے
ذریعہ یوں
حاصل ہوتی ہے
کہ روزہ دار
کے سامنے اس کی
مرغوبات
موجود ہیں، جن
کے استعمال پر
وہ قدرت بھی
رکھتا ہے اور
ان کے استعمال
کی اُسے شدید
خواہش بھی ہوتی
ہے؛ لیکن وہ
محض اللہ کی
رضا کے لیے
انھیں ہاتھ نہیں
لگاتا اور ان
کے استعمال سے
رُکا رہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ
اللہ تعالیٰ
نے روزہ کو
بطور خاص اپنی
جانب منسوب
فرمایا ہے۔
کُلُّ
عَمَلِ ابْنِ
آدمَ لَہ
الاَّ الصِّیَامُ
فَاِنَّہ
لِیْ وَأنَا
اَجْزِی بِہ یَدَعُ
طَعَامَہ
مِنْ أجَلِيْ
وَیدَعُ
شَرَابہ
مِنْ أجَلِيْ
وَیَدَعُ
لَذَّتَہ
مِنْ اَجَلِیْ
وَیَدَعُ
زَوْجَتَہ
مِنْ اَجَلِیْ․
(ابن خزیمہ)
(انسان
کا ہر عمل اس
کے لیے ہے؛
البتہ روزہ یہ
خاص میرے لیے
اور میں ہی اس
کا بدلہ دوں
گا وہ میرے لیے
اپنا کھانا
چھوڑ دیتا ہے
میرے لیے اپنا
پینا چھوڑ دیتا
ہے، میرے لیے
اپنی لذّت
چھوڑ دیتا ہے
اور میرے لیے
اپنی بیوی کو
چھوڑ دیتا ہے۔)
روزہ
کی مشروعیت سے
مقصود انسان
کو تنگی اور
دشواری میں
مبتلا کرنا نہیں
ہے، جیسا کہ
خود اللہ تعالیٰ
روزہ کی فرضیت
کے بعد اس
حکمت کو بیان
کرتے ہیں۔
یُرِیْدُ
اللہُ بِکُمُ
الْیُسْرَ
وَلاَ یُرِیدُ
بِکُمُ
العُسْرَ․
(البقرہ)
(اللہ
چاہتا ہے تم
پر آسانی اور
نہیں چاہتا ہے
تم پر دشواری)۔
بلکہ
روزہ سے مقصود
روحانیت کو قوی
کرنا ارادہ میں
استحکام پیدا
کرنا اور صبر
و رضا کا خوگر
بنانا جسم
کوامراض سے
بچانا اور
اللہ تعالیٰ کی
نعمتوں کی
انسان کے دل میں
قدر ومنزلت پیدا
کرنا ہے۔
روزہ
اور ہمارا
طرزِ عمل
رمضان
المبارک کا
روزہ جن مقاصد
حسنہ کی تحصیل
کے لیے فرض کیاگیا
تھا، ہمارے
سلف صالحین نے
روزہ کے آداب
و واجبات کی
رعایت کرکے ان
مقاصد کو پورے
طور پر حاصل کیا۔
وہ حضرات دن
کو روزہ رکھتے
تھے اور رات
بھر ذکر و فکر
اور نماز و
تلاوت میں
مشغول رہتے
تھے اور رمضان
المبارک کے ایک
ایک لمحہ کو
اللہ کی عبادت
میں گذارتے
تھے، وہ اپنی
زبانوں کو بیہودہ
گوئی سے بند
رکھتے تھے اور
کانوں کو لغو
اور فحش باتوں
کے سننے سے
محفوظ رکھتے
تھے، ان کی
آنکھیں حرام چیزوں
کی طرف قطعاً
نہیں اٹھتی تھیں۔
اس طرح اُن کے
تمام اعضاء
روزہ سے رہتے
تھے؛ لیکن آج
ہمارا یہ حال
ہے کہ ہم اس
مبارک مہینہ
کو بھی دیگر
مہینوں کی طرح
ضائع کردیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ
نے روزہ کو اس
لیے فرض کیاتھا
کہ اس کے ذریعہ
روح و قلب کو
فائدہ پہنچے؛
مگر ہم نے
روزہ کو پیٹ
اور معدہ کو
پُر کرنے کا
مہینہ بنالیا۔
اللہ نے اُسے
حلم و صبر کے
حاصل کرنے کا
ذریعہ بنایا
تھا؛ مگر ہم
نے اُسے غیض و
غضب اور غم و
غصّہ کا مہینہ
بنالیا۔ اللہ
تعالیٰ نے
اُسے سکینت و
وقار کا مہینہ
بنایا تھا؛
مگر ہم نے
اُسے گالی
گلوج اور لڑائی
جھگڑے کا مہینہ
بنالیا، اللہ
تعالیٰ نے
روزہ کو اس لیے
فرض کیا تھا
کہ ہماری
عادتوں میں
تبدیلی آئے؛
مگر ہم نے
سوائے کھانوں
کے اوقات میں
تبدیلی پیدا
کرنے کے کچھ
نہیں کیا۔
ع ببیں
تفاوتِ رہ از
کجاست تا بہ
کجا
$ $ $
----------------------------------------------
ماہنامہ
دارالعلوم ،
شمارہ 8-9 ، جلد: 95
،
رمضان — شوال 1432 ہجری
مطابق اگست
— ستمبر 2011ء